دوحہ قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کےمابین قیام امن کےلئے ‎مذاکرات ۔۔۔

افغانستان(وایس آف خیبر نیوز ڈسک)افغانستان میں قیام امن کیلئے دوحہ قطر میں امریکہ اور امارت اسلامی افغانستان ( افغان طالبان ) کے مابین قیام امن کیلئے18 مہینے طویل مدت مذاکرات ہوئے، تین بار مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا، اور ایک بار امریکی صدر ڈونکڈ ٹرمپ نے ختم کرنے کا بھی اعلان کیا، تاہم چونکہ مذاکرات کے بغیر کوئی دوسرا راستہ کسی کے پاس بھی نہ تھا، یہی وجہ تھی، کہ امریکہ بھی مجبور ہوکر زندگی میں پہلی بار کسی نان اسٹیک پولڈر تسلیم کرنے والے گروہ کے بینر تلے دوحہ امن معاہدہ کیا،
28 فروری کو دوحہ امن معاہدہ بھی آخری امن معاہدہ نہیں تھی، اس لئے دوحہ امن معاہدہ میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین 10 مارچ 2020 کو بین الافغان امن مذاکرات کرنے کا شرط رکھ دیا،
بین الافغان امن معاہدہ میں ڈیڈ لاک تا حال برقرار ہے، افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں، کہ وہ سمجھتے ہیں، کہ دوحہ امن معاہدہ میں چند کوتاہیاں موجود ہے، جیسا کہ ٹائم صرف دس روز میں امن مذاکرات کیلئے افغان حکومت اور افغان طالبان کو بیٹھانا مسلہ ہے؟ دوسری کوتاہی یہ کہ اس معاہدے کے دوران کوئی اور ملک بطور ضامن ہونا ضروری تھا، جس نے کسی اور کو اس میں بطور ضامن نہیں بنایا ہے، اگر کوئی تیسرا ملک اس میں بطور ضامن ہوتا ، تو وہ افغان طالبان، امریکا اور افغان حکومت اگر کعئی بھی غلطی کرتے؟ یا حقائق سے مننہ پھرتا تو وہ معاہدے کے تمام نقاط پی عمل کرنے کا کہہ سکتے تھے۔
دوحہ امن معاہدے کے دوران جنگی قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق ہواتھا، جو پوری دنیا میں اور روایت چلی آرہی ہے، یہاں افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین قیدیوں کی فہرستیں بھی ایک دوسرے کو پیش کردئے گئے، طالبان کا حکومت کے ساتھ 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کی فہرست دی، جبکہ افغان حکومت کا 1 ہزار قیدیوں کی فہرست دیدی گئی، تاہم اس اہم نقطے سے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے انکار کیا، قیدیوں ہی کے تبادلے پر دریقین کے مابین ڈیڈ لاک اب بھی برقرار ہے۔
ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے افغانستان امن کیلئے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیلزاد نے انتہائی اہم اور متحرک کدار آدا کیا، جس نے پاکستان امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کے دورے کئے، افغانستان میں مرحلہ وار قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، جو اب تک 4ہزار طالبان قیدی رہا کردئے گئے ہیں، جبکہ افغان طالبان نے بھی مختلف مراحل میں 6 سو سے زائد افغان حکومت کے قیدی رہاکردئے ہیں۔
کابل انتظامیہ کہتی ہے، کہ وہ 5 ہزار کی فہرست میں کئی سو قیدی رہا نہیں کرسکتی، جس میں انتہائی خطرناک دہشتگرد بھی شامل ہے، دوسری جانب دوحہ میں موجود افغان طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کہتے ہیں، کہ جب تک دوحہ امن معاہدے اور فہرست کے مطابق ان کے قیدی رہا نہ کئے جائیں تب تک وہ کسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل کے قائل نہیں ہے۔
سہیل شاہین کہتے ہیں کہ جس روز ان کے تمام قیدی رہا ہوگئے ؟ ایک ہفتے کے اندر وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرسکتے ہیں، ان کا کہنا ہے، کہ بین الافغان امن مذاکرات دوحہ امن معاہدہ کو من و عن تسلیم کرکے امن کی جانب جانا ہوگا۔
سینیئر صحافی فخر کا کا خیل نے نیوز کیفے کو بتایا، کہ افغان حکومت اور امارت اسلامی افغانستان کے مابین بین الافغان امن مذاکرات ممکن ہے، جس کے بغیر صرف جنگ کا نام ہے، تاہم افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے والے امن ڈھونڈنے والوں سے شائد ذیادہ ہو؟
بہت ساری قوتوں کی بقا کا مسلہ ہے، انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا، لیکن ان کا کہنا ہے، کہ افغانستان میں نان ایکٹرز ممالک شامل ہیں، جو خود کو غیر اعلانیہ اس ملک کا اسٹیٹ ہولڈرز تصور کرتے ہیں، شائد یہی وجہ ہے، کہ افغان امن کا قیام ہو یا بین الافغان امن مذاکرات میں ڈیڈ لاک کی کوشش ؟ تو زلمے خلیل زاد نے ہمیشہ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے کردار آدا کرنے کیلئے درخواست کرتے رہتے ہیں، جس میں ایران ، پاکستان، روس، تاجکستان، ازبکستان، اور کئی دیگر ممالک کا رخ کرلیا ہے۔
بعض افغان مبصرین کا خیال ہے، کہ شائد افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا قریبی حلقہ بھی افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین بہتر تعلقات ہضم نہیں ہورہے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے، کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے مفادات خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
اگر صورت حال یہ رہا تو شائد افغان امن قصہ پارینہ بن جائیں ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں