دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے بھی مجرم

گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران پاکستان کو دہشت گردانہ حملوں سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم، دہشت گردانہ حملوں کے باوجودعدالتی طریقہ کار اور سرگرمی دہشت گردوں کے حوالے سے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔پاکستان میں سن2000 سے دہشت گردی سے متعلق 30ہزار سے زیادہ واقعات کے نتیجے میں 80ہزارسے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں صرف سیکورٹی فورسز کے جوان 6ہزار سے زیادہ شہادتیں اور 20ہزارزائد زخمی ہوئے۔پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے 152 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔تاہم جہاں ریاست کے تمام طبقات نے اس لعنت کو شکست دینے کے لیے ایک لچکدار لڑائی لڑی ہے، وہیں پاکستان دنیا میں سزا کی سب سے کم شرح میں سے ایک ہے۔ بری ہونے والے دہشت گردوں کے ذریعے بار بار جرائم کا سامنا کرنے کے باوجود وہی عمل دہرایا جا رہا ہے حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 17 ہائی پروفائل دہشت گردی کی کارروائیوں میں جن میں میریٹ اسلام آباد حملہ بھی شامل ہے ان میں تمام مشتبہ افراد یا تو بری ہو چکے ہیں یا ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، دہشت گرد مشتبہ افراد جنہیں پہلے سیکورٹی ایجنسیوں نے پکڑ کر عدالت میں پیش کیا تھا اور بعد میں عدالت نے کسی نہ کسی بہانے چھوڑ دیا تھا، بعد میں وہ کئی اہم دہشت گرد حملوں میں ملوث پائے گئے۔ اس سلسلے میں کوئٹہ میں 2016-17 میں ہونے والے دہشت گرد حملے، چینی قونصلیٹ پر 2018میں ہونیوالا حملہ اور 2019میں داتا دربار پر ہونیوالا حملہ شامل ہے پاکستان، گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود، دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں سزا کی سب سے کم تقابلی شرح دیکھی ہے۔یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس (یو ایس آئی پی) کے آزاد اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان بھر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (1997) کے تحت مجرموں کو سزا سنائے جانے کی شرح صرف 8.7 فیصد ہے، جب کہ برطانیہ، چین اور جاپان جیسی ریاستوں میں یہ شرح 88.0 ریکارڈ کی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں