لاک ڈاﺅن یا زہر قاتل ؟

لاک ڈاﺅن کالفظ میرے لئے شٹرڈاﺅن ہڑتال جیساہی تھا دوچاردن دکانیں بندرہنے کے بعد شٹرکھل جائیں گے مزدور کی دیہاڑی پھر سے شروع ہوجائے گی اورمعمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہوگی لیکن تین دن کالاک ڈاﺅن اتناطویل ہوجائے گا اس کااندازہ شاید کسی کونہیں تھا لاک ڈاﺅن نے جہاں ملکی معیشت کاپہیہ جام کردیاہے وہیں مزدور سے لیکر سرمایہ کار اور کارخانہ دار طبقہ بھی اس سے شدیدمتاثرہوا ہے لیکن معاشرے کا ایک بے ضررطبقہ سفید پوش لوگوں کابھی ہے جن کے گھر فاقے چل رہے ہوتوبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور اپنی خواہشات کم کرکے اورپیٹ پرپتھرباندھ کر گزارہ کرنے کوترجیح دیتے ہیں اوراگر حالات موت سے بدترہوجائیں تو گھرکاسامان بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،لاک ڈاﺅن کالفظ لیتے ہی ذہن میں گمان ہونے لگتاہے کہ یہ لاک ڈاﺅن نہیں بلکہ معلومات زندگی پر کسی نے تالا لگا دیا ہو ہر بندہ اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ اگلا دن کیسے گزرے گا۔ لاک ڈاﺅن میں ایسے سفیدپوش لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جن کی آنکھوں میں حسرت ویاس کابہتاسمندر تھالیکن بچوں کاپیٹ بھرنے کےلئے زبان سے مانگنے کے گرُسے ناآشناتھے ،رزق دینے والی اللہ پاک کی ذات ہے لیکن وصیلہ ہم انسان ہی بنتے ہیں ،علاقہ ہشتنگری کے ایک درجن سے زائد سفیدپوش گھرانوں کی لسٹ ہاتھ لگی جنہیں گھرکاچولہاجلانے کےلئے راشن کی سخت ضرورت تھی بھلاہواس انسان کا جس نے یہ لسٹ مجھ تک پہنچائی زندگی میں پہلی مرتبہ یہ نیک کام شاید اللہ تعالیٰ نے مجھ سے لیناتھا اس لئے فوراًموبائل اٹھایا اور جتنے بھی یاردوست تھے انہیں ان غریب خاندانوں کےلئے راشن کابندوبست کرنے کاکہا نہایت ملنسار اورنیک دل پشاورکے مقامی صحافی نے رابطہ کرکے راشن پوائنٹ پر آنے کاکہا اگلے ہی روز سفیدپوش خاندان کے تین سربراہ صحافی دوست کے بتائے پتہ پر بھجوادئیے لیکن مجھ سمیت ضرورت مند افرادکویہ علم نہیں تھاکہ راشن پوائنٹ پرراشن کی جگہ تین ہزارروپے کی نقدی تقسیم ہورہی تھی اورنقدی دیتے وقت (سیلفی)تصویر کی شرط عائد تھی یہ منظر دیکھ کر جیسے سفید پوشوں کے پاﺅں تلے جیسے زمین نکل گئی راشن لینے جانےوالوں میں دوخواتین نے برقعہ اوڑھ کر نقدی وصول تو کرلی لیکن ندامت سے انکے جھکے سر نے معاشرے کے ماتھے پر کئی سوال چھوڑ دئیے، خوداری کےساتھ تمام عمر بسرکرنے والے ہشنگری کے رہائشی عرفان نے سلفی کےساتھ نقدی لینے سے انکار کردیا جس کو اس بات کا پوری طرح اندازہ تھاکہ اگر وہ پیسے وصول نہیں کرے گا تو اسکے بچے بھوکے رہ جائینگے عزت وخودگیری پرسمجھوتہ نہ کرنےوالے اس انسان نے بھوک سے مرجانے کوترجیح تودی لیکن اپنے وقارکوپامال ہونے نہیں دیا بدقسمتی سے بعض صاحب ثروت افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ بھرے پیٹ رکھنے والوں کواحترام کے ساتھ عالیشان محلوں اور ریسٹورنٹس میںروٹی کھلائیں توثواب ہے لیکن خالی پیٹ رکھنے والے غریب ومتوسط طبقہ کی سرے عام بے عزتی کےساتھ امداد کویہ لوگ ثواب کے کس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔یہ تو اچھا ہے کہ رزق دینے والی اللہ تعالیٰ کی زات ہے وگرنہ یہ اختیاربھی انسان کے ہاتھ میں ہوتا تونہ جانے کتنے لوگوں کی بھوک وافلاس سے موت کی وجہ یہی صاحب ثروت افرادہوتے جنہیں دوسروں کی مجبوری،خوداری اورعزت ووقار کااندازہ نہیں ،تحریرکاخاتمہ اس دعاسے کرونگاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی عزت وآبروکی سلامتی کاضامن بنائے،آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں