پچلے چند برسوں میں تو پاکستان میں چلغوزے کی قیمتوں میں بے پناہ تیزی دیکھنے کو ملی اور خصوصا سوشل میڈیا میں تو اس پر دلچسپ مییمز اور لطائف بھی بنائے گئے۔
چلغوزہ صنوبر کے درخت میں اگنے والے کون میں پایا جاتا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق صنوبر درختوں کی اقسام میں سب سے کم بڑھنے والا درخت ہے۔چلغوزے کے درخت شمالی پاکستان، افغانستان اور بھارت کے بلند و بالا اور سرد ترین علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان گلگت بلتستان خصوصا ضلع دیامر، خیبرپختونخوا میں شمالی وزیرستان و جنوبی وزیرستان اور چترال اور بلوچستان میں ژوب میں چلغوزے کے درخت پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں چلغوزے کی تین بڑی منڈیاں ہیں جو بنوں، چلاس اور لاہور میں واقع ہیں۔ تاہم چین کی سرحد کے نسبتاً قریب ہونے کی وجہ سے چلاس کا مال زیادہ تر چین جاتا ہے۔ چلغوزے کی ایک بھاری مقدار افغانستان سے بھی پاکستان کی منڈیوں اور خصوصاً بنوں پہنچتی ہے جس کی وجہ سے لاہور اور چلاس کے مقابلے میں بنوں کی منڈی چلغوزے کی سب سے بڑی منڈی کہلاتی ہے۔یورپ میں بھی اس وقت چلغوزہ کی ایکسپورٹ کے لیے خاصے مواقع ہیں اور خصوصا اسپین،جرمنی، اٹلی اور فرانس چلغوزہ کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ایک تحقیق کے متابق تقریباً ایک دہائی پہلے تک چلغوزہ اتنا مہنگا نہیں تھا اور یہ بازار میں ایک ہزار روپے کلو تک بھی مل جایا کرتا تھا لیکن پچھلے چند سالوں میں اس خشک میوے کی مانگ یورپ اور امریکہ میں بڑھنی شروع ہوئی جس کی وجہ اس میوے سے متعلق دلچسپ تحقیقات تھی۔ماہرین کے مطابق چلغوزے کا شمار ہائی کیلوریز والی غذاؤں میں ہوتا ہے اور اس میں صحت کے لیے مفید پائیتھو کیمیکلز، وٹامنز، منرلزاور اینٹی آکسیڈینٹس پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت پر بیشمار اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔چلغوزے میں خاص طور پر اولیک ایسڈ پایا جاتا ہے جو جسم میں موجود برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کا اضافہ کرتا ہے اور اگر اس میوے کو اپنی روزانہ کی خوراک میں شامل کر لیا جائے تو اس میں موجود وٹامنز اور منرلز دل کی بیماریوں کے پیدا ہونے کے خدشات کو کم کردیتے ہیں۔چلغوزے میں شامل منرلز ہمارے جسم کو پرسکون کرتے اور نیند اور یاداشت کو بہتر بناتے ہیں۔ آئرن سے بھرپور ہونے کی وجہ سے چلغوزہ خون کی کمی والے افراد کے لیے بھی ایک بہترین غذا ہے۔دیگر خشک میوہ جات کی طرح چلغوزے میں بھی وٹامن ای کی ایک بڑی مقدار شامل ہوتی ہے جو ایک طاقتور لیپڈ سلوبل اینٹی آکسیڈینٹ ہے جو قوت مدافعت کو توانا کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے چلغوزے ایشیا کے بہترین چلغوزے شمار کیے جاتے ہیں ۔ شمالی وزیرستان میں تحصیل دتہ خیل اور شوال میں چلغوزے کے درخت پائے جاتے ہیں اور یہ دونوں تحصیل افغانستان کے ساتھ سرحد پہ واقع ہے اس یہاں کے مقامی لوگوں کے زیادہ تر جائیدادیں پاکستان کے اس پار افغانستان میں بھی ہے ۔ جس میں سے چلغوزے کے بھرے پہاڑ بھی یہاں کے لوگوں کی آمدن کا اہم ترین حصہ ہے ۔
پاکستان میں چلغوزے کی سب سے بڑی منڈی آزاد منڈی بنوں میں چلغوزے کے تاجر اور شمالی وزیرستان کے این اے اڑتالیس کے امیدوار ملک نیک عمل خان کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے اس علاقے میں موجود چلغوزہ کے کاروبار اور پیداوار کو بری طرح سے متاثر ہوا ہے کیونکہ 2014 سے 2016 تک یہاں پر کوئی نہیں جا سکتا تھا اس کے بعد 2017 اور 18 میں جو فصل ہوا تھا تو لوگوں کو ایک بار پھر انٹری ملی آپریشن کے بعد لوگوں کو ہر سال نئے انٹریز دیتے ہیں جس میں بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لوگوں کو کیونکہ سکیورٹی حدشات کی وجہ سے انٹری میں بہت مسئلے ہوتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ہر سال جب اپنی باغات میں فصلوں کی کٹائی کیلئے جاتے ہیں تو راستے میں محتلف جگہوں پر ہم سے دستاویزات چیک کرتے ہے جس کی وجہ سے ہم مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں راستے میں سکیورٹی والے چیک کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ وقت پر نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
ملک صاحب کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں ہر سال بیلن روپے کی صرف چلغوزہ کی فصل تباہ ہوتا ہے اسکی بھی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہاں پر وہاں کے مقامی لوگ نہیں ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے آجکل شمالی وزیرستان میں چلغوزہ کی فصل متاثر ہورہی ہے اور جب فصل کمزور ہوگا تو ظاہری بات ہے وہاں کے لوگوں کی کمائی پر بھی آثر پڑتی ہے۔
ایک بہت بڑی وجہ جو کہ یہاں پر بیان کرنا لازمی ہے وہ یہ ہے کہ وزیرستان کے لوگوں کی بارڈر کے اس پار پر وزیرستان کے لوگوں کے چلغوزہ کے پہاڑ ہے جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ پیک (بوری) فصل کرتا ہے اور وہ بھی بارڈر کے معاملے کی وجہ سے پنسے ہے۔اور اس کے لئے وہاں کے لوگوں نے محتلف محکموں میں درخواستیں بھی جمع کیے ہیں جرگے بھی کئے ہیں محتلف پلیٹفارمز پر آواز اٹھایا ہے کہ اس کے لئے کوئی پالیسی بنائی جائے کیونکہ بارڈر کے اس طرف وزیرستان کے لوگوں کی اپنی فصل ہے اور اسکے ساتھ ساتھ افغانستان کا جو اپنا فصل ہے اس کے لئے بھی پاکستان لانے کے لئے کوئی آسان پالیسی بنائی جائے کیونکہ وہاں سے جو مال اور سامان آتا ہے وہ یہاں سے پھر محتلف ممالک کو ری ایکسپورٹ ہوتا ہے جیسا کہ چائنہ ،دوبئی وغیرہ تو اس کے لیے بھی کوئی آسان پالیسی بنائی جائے تا کہ یہاں کہ لوگوں کو ایک روزگار مل جائے اس حوالے سے افغانستان کے تاجروں نے بھی میٹینگ کیا ہے کیونکہ وہاں سے سامان تاجکستان کے راستے پر چائنہ جاتا ،انڈیا بائے ائیر دوبئی اور ہان کانگ جاتا ہےوہاں کے لوگوں نے ایک پالیسی بنائ کیونکہ یہاں پر بارڈر پر ٹیکسیسز زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ اور راستوں کے زریعے اپنے کاروبار کو فروع دیتے ہیں اور اپنی سامان ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں کاروبار میں آسانی پائدہ کریں تاکہ اسی طرح ہمارے ملک میں زیادہ سے زیادہ پیسے آجائے اور ہماری ملک مستحکم ہوجائے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مل جائینگے بارڈر کے اس پار موجود مال کے لیے جتنی آسان پالیسیاں بنائی جائے اتنی ہی کاروبار کے مواقع اور ملک میں زرمبادلہ زیادہ آئےگی اور اس سارے صورتحال پر نہ ہماری حکومت اور نہ ہماری اعلی خکام نے کوئی مضبوط ایکشن لی ہے ہماری درخواست ہے کہ ہمارے لئے کوئی پالیسی بنائی جائے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔
جبکہ ڈی سی شمالی وزیرستان ریحان گل کا کہنا ہے کہ ہماری بات ہوئی ہے اس اہم معاملے پر ہم کوشش کرینگے کہ اینٹری میں جیتنا آسانی پیدا ہو سکتی ہے ہم کرینگے لیکن وہاں کچھ علاقے سیکورٹی کے حوالے سے حساس ہے اس لئے اینٹری کرنا پڑے گا ۔ اور شمالی وزیرستان کے چلغوزے کے کاروبار میں ہم بہتری لانے کی کوشش کرینگے تاکہ یہاں کہ لوگ دوسرے ممالک کے بجائے اپنے علاقے اور اپنے شہر میں بہتر سے بہتر کمائی کریں ۔
تحریر: شاھین وزیر