پاکستان میں قوم لوط کا طرز زندگی وبائی شکل اختیار کر چکی ھے جو نو عمر لڑکوں اور نوجوانوں کو تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے رہی ھے، اس وباء نےتعلیمی اداروں سمیت ہر شعبہ زندگی میں نوعمر لڑکوں اور نوجوانوں کو بری طرح متاثر کیا ھے، اگر کوئی این جی او یا کوئی اور ادارہ اس وباء میں مبتلاء لوگوں کے اعداد و شمار اکھٹے کرنا شروع کردے تو اس کے نتائج تشویشناک حد تک لاکھوں میں جا سکتے ھیں ، اس وباء کی موجودگی اور پھیلاو سے کم و بیش ہر شہری باخبر ھے مگر ھمارے معاشرتی اداب کے پیش نظر اس موضوع پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ھے جسکی وجہ سے اسکی روک تھام یا تدارک ممکن دکھائی نہی دیتی، یہ بات بھی طے ھے کہ اس مرض میں مبتلاء ھونے کی وجہ غربت یا زریعہ امدن کو جواز بنانا نہ ھونے کے برابر ھے اکثریت اس قبیح عمل کو شوقیہ یا جدید فیشن کے طور پر اپنا رہے ھیں
سوشل میڈیا پر غیر محسوس انداذ میں جب اس بارے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے اس وباء سے بری طرح متاثر ھوئے ھیں جبکہ خیبر پختونخوا کے بعض شمالی اور شمال مشرقی علاقوں کے نوجوانوں کی اکثریت بھی اس شرمناک عمل کو مستقل بنیادوں پر اپنا چکی ھے، پنجاب کے جنوبی اضلاع میں اعلی تعلیمیافتہ ادھیڑ عمر کے کئی افراد کے علاوہ بعض ایسے لوگ بھی اس مرض میں مبتلاء پائے گئے ھیں جو اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد قبر میں پاوں لٹکائے بیھٹے ھیں،
سندھ کے وسطی علاقوں کی حالت بھی اس حوالے سے تشویشناک ھے، قوم کے مستقبل کے معماروں کی یہ صورتحال اور اخلاقی پستی کی یہ حالت ہر گز ایسی نہی کہ اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جائے، اگر اس شرمناک عمل کا راستہ بروقت نہ روکا گیا تو انے والے وقتوں میں یہ عمل پاکستان کی پہچان بھی بن سکتا ھے،
گذشتہ روذ ایک لڑکی کا اڈیو پیغام موصول ھوا جو میرے پاس محفوظ ھے اس پیغام میں مذکورہ لڑکی نے اس وباء پر شدید احتجاج کیا ھے،
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس سنگین صورتحال کی اصلاح کی توقع کس طبقے یا ادارے سے کی جائے کیونکہ ہر طبقہ تو اسکی لپیٹ میں اچکا ھے،