جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے تو اسلام اس نظریہ کی نفی کرتا ہے ۔رسول اللہؐ نے جنگ کے لیے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فرمائے اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی حال میں ا ن سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ قتال کے سلسلے میں نبی کریم ؐکی جو ہدایات ہیں، وہ انسانی تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں، جہاد کے خلاف جو مہم جوئی چلائی جا رہی ہے اور اسے جس طرح دہشت گردی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، وہ سراسر بدنیتی اور تعصب پر مبنی ہے۔
نبی کریم ؐنے اہل قتال اور غیر اہل قتال کا فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ غیر اہل قتال کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، زاہدوں اور مندروں کے مجاوروں اور پجاریوں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائے۔
رسول پاک ؐمجاہدین کو رخصت کرتے ہوئے فرماتے “کسی بوڑھے، بچے، نابالغ لڑکے اور عورت کو قتل نہ کرو، اموال غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آ جائے سب ایک جگہ جمع کر دو، نیکی اور احسان کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ؐنے کسی غزوے میں ایک مقتول عورت دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)
عرب عموماً شب خون مارتے تھے، رسول اللہ ؐنے اس عادت کو بند کر دیا اور صبح سے پہلے حملہ کرنے کی ممانعت کی، حضرت انس ؓغزوہ خیبر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :نبی کریم ؐکسی قوم کے پاس رات کو پہنچ جاتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر )
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے کے اور کسی کو سزاوار نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ نے قتل صبر (باندھ کر مارنے) سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر)
ایک دفعہ سفر جہاد میں اہل لشکر نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو علم ہوا تو آپ نے دیگچیاں الٹ دینے کا حکم دیا اور فرمایا : لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
افواج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام اور آتش زنی کرنا، اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔اور جب وہ پلٹتا ہے تو زمین میں دور دھوپ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ۔(البقرۃ، 205 )
اسلام نے صرف خصوصی حالات میں ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے اور جانوروں کو زبح کرنے کی اجازت دی ہے، یعنی جب ان امور میں کوئی مصلحت ہو۔
دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا، حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریم ؐنے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم )
مجاہدین کی روانگی سے پہلے آپ ؐنے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : بدعہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو
(صحیح مسلم، کتاب الجھاد)
فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ؐنے شہر میں داخل ہونے سے پہلے اعلان فرمایا : کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے “۔ (فتوح البلدان للبلازری)
سفیروں اور قاصدوں کے قتل سے بھی نبی الرحمت والامن صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ۔مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو آدمی (قاصد) گستاخانہ پیغام لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد )
عہد توڑنے اور معاہدین (ذمیوں) پر دست درازی کرنے کی مذمت میں بے شمار احادیث آئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو کسی معاہد (ذمی) کو قتل کرے گا، اس کو جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی ۔(صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ)
عرب لوگ دور جاہلیت میں جب جنگ کے لیے نکلتے تو بدنظمی کا شکار ہوتے، راستوں کو تنگ کرتے اور آبادیوں کو پریشان کرتے، ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی شکایت پہنچی کہ مجاہدین میں بدنظمی پھیلی ہوئی ہے، منزل کو تنگ کر رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا : جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ گیروں کو لوٹے گا تو اس کا جہاد نہیں ہے ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد)
دور جاہلیت کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب جہاد کے لیے مجاہدین کو روانہ کرتے تو فرماتے : اللہ کی راہ میں اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو، ہر اس شخص سے جو اللہ کا منکر ہو، جہاد کرو اور مال میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو ۔(صحیح مسلم، کتاب الجھاد)
ان احکام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جنگ و جہاد کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک جزو بنے ہوئے تھے، وحشیانہ افعال اور یہ سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے، اس اصلاحی تعلیم نے دو سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے، ان کا بہترین نتیجہ فتح مکہ ہے جس کے باعث لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور ہر طرف امن و امان کا ماحول پیدا ہوا۔
اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق غیر جانب دار افراد یا ممالک کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی، خواہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو. اسلام نے ایسے غیر جانب دار لوگوں کے ساتھ پُرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا. وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے.
1. اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو. عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے‘‘
اس آیت میں کسی قوم کی دشمنی کے باوجود اس کے ساتھ طرزِ عمل میں ظلم کرنے یا حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ امام قرطبی نے ابو عبیدہ اور فراء کے حوالے سے اس کا معنی بیان کیا ہے:
دہشت گرد بلاامتیازِ مذہب و جنس – خودکش حملوں، بم دھماکوں اور دیگر ذرائع سے – انسانیت کے قتل عام کے مرتکب ہو رہے ہیں. ان کی سب سے بڑی دلیل – جس کی بناء پر وہ ایسا کرنا جائز سمجھتے ہیں – مسلمان ممالک پر غیر مسلم فوجوں اور طاقتوں کا قبضہ اور وہاں کے مسلمانوں پر زبردستی جنگ مسلط کیا جانا ہے.
اس پس منظر میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ دہشت گرد جس طرح بلا امتیازِ مرد و زن، بازاروں، شہروں، عبادت گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے انسانیت کے قتلِ عام کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا حالتِ جنگ میں بھی ایسے اقدامات کی اسلام اجازت دیتا ہے؟
دہشت گردی کی مذمت اور اس کی حقیقت پر دلائل بڑے واضح اور صریح ہیں. اگر ہم بعض انتہا پسندوں کے اس موقف کو ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ وہ اسلام دشمن قوتوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو اس صورت میں بھی ان کی کارروائیاں اسلامی جہاد کے زمرے میں نہیں آئیں گی کیونکہ موجودہ دور میں جاری ان کی سرگرمیاں کسی صورت بھی اسلامی قوانینِ جنگ کے دائرے میں نہیں آتیں. عہدِ نبوی اور عہدِ خلفاء راشدین میں جاری کئے گئے احکامات و ہدایات ذیل میں ملاحظہ ہوں.
موجودہ دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں میں مسلمان ریاستوں سمیت غیر مسلم ممالک میں بھی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے. اس پر یہ لوگ غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے جاری رکھے جانے والے معاندانہ سلوک کو دلیل بناتے ہیں کہ چونکہ غیر مسلم حکومتیں مسلمانوں کو قتل کرنے پر آمادہ ہیں اور اس کا ارتکاب کر رہی ہیں، اس لیے ہمیں بھی جوابی کارروائی کے طور پر ان کے شہروں میں قتال کرنا چاہیے. حالانکہ ان کی یہ دلیل بنیادی اسلامی تعلیمات اور اسلام کے عمومی مزاج کے سراسر خلاف ہے. اسلام اس طرح غیر مسلموں کا قتل عام تو کُجا دورانِ جنگ بھی بے قصور غیر مسلموں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے. اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے دورانِ جنگ بھی اسلامی فوجوں کے لئے باقاعدہ اصول و ضوابط کا تعین کیا. چنانچہ تعلیماتِ اسلام کے مطابق دورانِ جنگ بھی عورتوں کا قتل جائز نہیں ہے.
درج بالا تصریحات سے یہ بات خوب واضح ہوتی ہے کہ جب اسلام پر جنگ مسلط کر دی جائے یا مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جائے اور جواب میں اسلامی ریاست کی فوج باقاعدہ جہاد میں مصروف ہو تو ایسے حالات میں بھی عورتوں، بچوں اور خدمت گزاروں کو قتل نہیں کیا جا سکتا. یہی نہیں بلکہ دوران جنگ فصلوں کو تباہ کرنے، عمارتوں کو مسمار کرنے، عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور لوٹ مار سے بھی منع کیا گیا ہے. جو اسلام دوران جہاد بھی ان امور کی اجازت نہیں دیتا اس کے نزدیک ایسے مسلمانوں یا غیر مسلموں کو جو براہ راست جارحیت میں ملوث نہ ہوں، پُر امن طریقیسے اپنے گھروں اور شہروں میں مقیم ہوں، کاروبار میں مصروف ہوں، سفر کر رہے ہوں یا مساجد میں مصروفِ عبادت ہوں – دہشت گردی کے ذریعے قتل کرنے کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے؟ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی کارروائیاں اِسلامی تعلیمات کے سراسر منافی اور قرآن و حدیث سے صریح اِنحراف ہیں.
ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈے کے اس دور میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف ذرائع تشہیر کے ذریعے اسلامی احکام وتعلیمات کے روشن اور تابناک پہلووٴں کا اظہار کرتا رہے، تاکہ رفتار زمانہ اور خود مسلمانوں کی غفلت اور نادانی کے نتیجے میں ، اسلامی تعلیمات کی خوبیوں پر گردوغبار کی جو دبیز تہہ جم چکی ہے اس کی صفائی ہو، اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی روشن وتابناک چہرہ لوگوں کے سامنے آئے، جس کا ایک نقد فائدہ تو یہ ہوگا کہ اغیار واجانب کی غلط فہمیوں پر مبنی نظریات وتصورات کا خاتمہ ہوگا، دوسری جانب ان کے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی راہیں کھلیں گی، یہ تحریر اسی تناظر میں ضبطِ تحریر میں لائی جارہی ہے کہ اسلامی قانونِ جنگ کے مختلف محاسن سامنے آئیں، اور غلط وباطل نظریات ومفروضات کا ازالہ ہو، اگرچہ مذہب اسلام سراپا خیر ورحمت ہے؛ لیکن مطلب پرستوں ،نفسانیت کے پجاریوں اور عدل وانصاف کے قاتلوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ حذف واضافہ اور ردوبدل کے ذریعے کسی بھی عبادت کے حقیقی مفہوم کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کرکے اس سے اپنا معنی ومطلوب کشید کرلیں، جس میں وہ ماہر ہوتے ہیں۔
چونکہ اس وقت اسلام کا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے ، وہ تعصب اور جانب داری کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے عمدا اور باتکلف اسلام کے قانون جنگ کو دوسرا رنگ وآہنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں، چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا حقیقی صاف وروشن چہرہ لوگوں کے سامنے ہوگا تو اس سے ان کی چودھراہٹ اور سرداری خطرہ کی زد میں آجائے گی؛ اس لیے یہ لوگ مختلف عنوانات سے اسلام کے چمکدار اور تابناک اور بلندوبالا سور ج پر تھوکنے کی احمقانہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اللہ عزوجل نے انسان کو مجموعہٴ اضداد بنایا ہے ، خیر وشر دونوں پہلو انسانی طبیعت میں ودیعت کیے ہیں ، انسان میں خیر کا پہلواسے نیکی اور بھلائی پر ابھارتا ہے ، جب کہ شر کا پہلو اسے آمادہٴ معصیت اور ظلم وستم کرتا ہے؛ اس لیے روزِ اول ہی سے اللہ عزوجل کا یہ قانون رہا ہے کہ وہ مختلف قوموں کو آمادہٴ پیکار کیے رہتے ہیں؛ تاکہ اس طرح نیکی اور بھلائی کا پلڑا بھاری ہوجائے ، سچائی وصداقت کی حقانیت آشکارا اور برائی کی قباحت وشناعت بھی عیاں ہوجائے ۔
چنانچہ دنیا میں حق وصداقت کے غلبہ اور برتری اور شر وفساد کے خاتمہ کے لیے مختلف قوموں کے درمیان آویزش وٹکراوٴ کے اپنے اسی ازلی قانون وروایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے یوں ارشاد فرمایا : ”جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک دوسرے سے زور نہ گھٹواتا رہتا تونصارےٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے بے شک اللہ تعالی اس کی مدد کرے گا جو (اللہ کے دین)کی مدد کرے گا ،بے شک اللہ تعالی قوت والا ،غلبہ والا ہے وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے“۔ مذکورہ بالا آیت میں مسلمانوں کو جو قتال کی اجازت دی گئی ہے وہ نہایت ہی ناگزیر حالت میں ہے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو یہ جنگ کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد وبگاڑ کریں ؛ بلکہ اس جنگ کی اجازت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جملہ مذاہب کی آزادی کو قائم رکھیں ، بد امنی اور انارکی کا خاتمہ کریں ، پارسیوں ، عیسائیوں ، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مسلمانوں کی مساجد کو ہر طرح کے نقصانات اور گزند سے مامون ومحفوظ رکھیں۔مطلب یہ ہے کہ یہ قتال اور جہاد کا حکم کوئی نیا حکم نہیں۔ پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کو بھی قتال کفار کے احکام دیے گئے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کسی مذہب اور دین کی خیر نہ تھی سارے ہی دین و مذہب اور ان کی عبادت گاہیں مسمار کردی جاتیں۔
جہاد سے متعلق سب سے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ اس لفظ کو ”جنگ “ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اسے عربی لفظ ”حرب “ کے مرادف باور کیا جاتا ہے جو تباہی وبربادی کے معنی میں آتا ہے (المعجم الوسیط : ۱۴۶) یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے کہیں بھی اپنے اسلامی نظریہٴ جنگ کے لیے لفظ ”حرب “ کا استعمال نہیں کیا ہے ، قابلِ التفات امر یہ ہے کہ جس ملت ومذہب ہی کے نام میں امن وعافیت کا مفہوم شامل ہو وہ کیوں کر بے جا کُشت وخون اور فساد وبگاڑ کی دعوت دے سکتا ہے ؛ بلکہ؛ دین دنیا میں آیا ہی اس لیے ہے کہ اس قسم کی ظلم وفسادپر مشتمل جنگوں کا خاتمہ کرے اور امن وامان اور عدل و مساوات پر قائم ایک ایسا نظریہٴ جنگ اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے کہ دورانِ جنگ بھی کسی کی حق تلفی یا اس پر ظلم وستم جائز نہ ہو ۔چنانچہ مذکورہ بالا لغت میں لفظ”جہاد “ کی تشریح یوں کی گئی ہے ”قتال من لیس لھم ذمة من الکفار“ غیر ذمیوں سے قتال (المعجم الوسیط)
اسلام میں جنگ ایک نہایت شریف عمل ہے ؛ لہٰذا ہمیں اس کے متعلق کسی طرح کے بھید بھاوٴ یا معذرت خواہانہ رویہ کے اختیار کرنے کر نے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے، اس کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ، اس کی تعلیمات دیگر مذاہب کی طرح محض چند رسوم وعقائد کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کا خود ساختہ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا قانون ودستور ہے ؛ بلکہ خالقِ کائنات کا نازل کردہ نظامِ حیات ہے، جس میں ہر شعبہٴ زندگی کے متعلق انسانیت کے لیے رہنمایا نہ اصول بتلائے گئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہر شخص اپنا سکتا ہے، کوئی بھی شخص ان اصول کو اپنا کر اس کے دامنِ رحمت وعافیت میں جگہ پاسکتا ہے ”اسلامی نظامِ جنگ “ ”جہاد“ یا اس جیسی نقل وحرکت کا مقصود بھی یہی ہے کہ فطرتِ انسانی سے موزون اعتدال پر مبنی ان تعلیمات کا ہرسمت بول بالا ہو ، روئے زمین سے ناانصافی ، بد امنی ، ظلم وجبر اور شروفساد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اس خدائی نظام کے تحت امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار سکے ، اشاعتِ اسلام کا ہرگز یہ مقصود نہیں کہ لوگوں کومجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے ، ارشاد خداوندی ہے ”لّا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ“دین میں زور زبردستی نہیں، اگر کوئی شخص جزیہ کی مشروعیت پر غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اسلامی جنگ کا مقصود اسلام کا غلبہ ہے خواہ وہ مخالف کے اسلام لانے سے ہو یا رعیت بن کر رہنا منظور کرنے سے ؛ چوں کہ جزیہ دے کر اسلامی سلطنت میں رہنا بھی در اصل اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہے ، جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تو فتنہ وفساد کے امکانات بھی ختم ہوچکے ؛ لہٰذا اب جنگ بھی موقوف کردی جائے گی ، اب اس ذمی شخص کو اسلامی سلطنت میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ایک مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں ، اسی کوآیت کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فسادنہ رہے اور دین (غلبہ)اللہ ہی کا ہوجاوے ۔ اور اگر وہ لوگ (فساد سے)بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہواکرتی بجز بے انصافی کرنے والوں کے“(البقرة :۱۹۳) اس آیتِ کریمہ میں جنگ بندی کی انتہا فتنہ وفساد کا خاتمہ بتایا گیا ہے ۔
دورِ رسالت کی غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد۸۲ ہے، اگران لڑائیوں کو جارحانہ اور اقدامی تسلیم کیا جائے تو بھی ان میں مقتولین کی مجموعی تعداد (۱۰۱۸) ہے اور (۸۲) پر ان کو تقسیم کرنے سے فی جنگ 12.414اوسط نکلتا ہے ، قیدیوں کی مجموعی تعداد (۶۵۶۴) ہے جو جزیرہ نما عرب کی وسعت کے مقابلہ میں ہیچ ہے اور چوں کہ ان کی تعدادکے اندر بڑی تعداد (۶۰۰۰) ایک ہی غزوہ حنین کی ہے (جوکہ بعد میں تمام آزاد کردیے گئے ) اس لیے باقی جنگوں میں اسیرانِ جنگ کا اوسط (۷) رہتا ہے ۔اس کے بالمقابل زمانہٴ گزشتہ کی دو عظیم جنگیں اور ان کی ہلاکت خیزیوں اور تباہیوں کا اندازہ لگائے جو صرف چھوٹی سلطنوں کو آزاد کرانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں، مقتولین ، مجروحین کی تعداد ساٹھ ستر لاکھ سے متجاوز ہے ، اہلِ دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں لو ، مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں،یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس ہلاک کیے ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے (تمام اعداد شمار کے لیے ملاحظہ ہو : رحمة للعالمین : ۲/۴۶۴)
جزیہ کی ادائیگی کوبھی جو کہ در اصل اسلامی تعلیمات کی بالادستی اور روئے زمین پر فتنہ وفساد مچانے سے رکنے کا اعتراف اور عہد ہوتا ہے اس کو بھی جنگ بندی کی انتہا بتلایاگیا ہے ۔اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :”اہلِ کتاب جوکہ نہ خدا پر (پورا پورا)ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین (اسلام)کو قبول کرتے ہیں، ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہوکر اور رعیت بنکر جزیہ دینا منظور کریں “(التوبة : ۲۹)جزیہ کہتے ہیں اس مال کو جو اسلامی سلطنت کے ما تحت رہنے والے غیر مسلموں سے ان کی جان مال ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے لیا جاتا ہے اور بالکل معمولی رقم ہوتی ہے ، جزیہ کی یہ رقم ادا کرنے والے یہ لوگ ذمی کہلاتے ہیں اور ان کے اسلامی سلطنت کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ان کے جان ومال ، عزت وآبرو کی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے ، ان کے مذہبی امور میں مداخلت کو اسلام منع کرتا ہے ، پھر اس میں بچے ، بوڑھے ، عورتیں اور معذورین سے جزیہ نہیں لیا جاتا ، اسی طرح مکاتب ، مدبر ، ام الولد پر بھی جزیہ نہیں ہوتا ، مذہبی پیشواجو گوشہ نشیں ہوں ان سے بھی جزیہ نہیں لیا جا تا۔(اصح السیر: ۴۷۴)
اسلامی قانونِ جنگ کا ایک حسین اور خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے دورانِ جنگ بے قصور ، نہتے اور کمزور لوگوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کی ہے ، عملاً جن لوگوں نے جنگ میں حصہ لیا ہے یا جنھوں نے مشوروں اور خدمات کے ذریعے ان کو مدد بہم پہنچائی ہے، یہی لوگ قتل کے مستحق ہوں گے ، بقیہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور خلوت نشیں عابدوں ، زاہدوں سے ہرگز تعرض نہ کیا جاتا ، دورانِ جنگ بے قصور لوگوں کے قتل کو تو رہنے دیجیے ، اسلام نے سرسبز وشاداب کھیتوں ، پھل دار درختوں اورباغات کو بھی نقصان پہنچانے سے روکا ہے ، ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا : کمزوربوڑھوں ، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے (ابوداوٴد:باب دعوة المشرکین إلی الإسلام : حدیث:۸۴۹)اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو جو ملکِ شام ایک مہم کے لیے روانہ ہوا تھا،انھیں اس قسم کی ہدایات دی تھیں کہ وہ بچوں کو قتل نہ کریں ، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی ضعیف بوڑھے کو نہ ماریں ، کوئی پھلدار درخت نہ کاٹیں، کسی باغ کو نہ جلائیں ( موٴطامالک : ۱۶۸)
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ عہدِ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں کہیں بھی کسی آبادی کو نرغے میں لیاہے وہاں کی ساری آبادی اور قبیلے کے سارے لوگ بنفس نفیس اور عملاً جنگ میں شریک تھے ؛ البتہ عہدِ صحابہ میں عموماً مسلمانوں کا مقابلہ وہاں کی آبادی سے نہیں ؛ بلکہ حکومت کے منظم فوجیوں سے ہوا ہے ؛ اس لیے مجاہدین نے اس ملک میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد وہاں کی عوامی املاک یا وہاں کے باشندوں کے مال وجان پر کسی طرح کی دست درازی نہیں کی ہے ؛ بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے حسنِ سلوک اور رواداری اور انصاف پر مبنی طرزِ عمل کو دیکھ کر کئی موقعوں پر اپنے ہم مذہب عیسائیوں اور پارسیوں کے خلاف ہی جاسوسی ، خبر رسانی اور رسد بہم پہنچانے اور اس قسم کی مختلف طرح سے امداد کی ہے، یہی وجہ تھی کہ جنگِ یرموک پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا: ”جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے“ ، عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا : ” خدا کی قسم ! تم رومیوں کے بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو “ (الفاروق : ۲/ ۱۲۰)غور طلب امر یہ ہے کہ اگر اسلامی جنگ کا مقصود کشیدگی اور بد امنی اور انارکی کا ازالہ اور وہاں عدل وانصاف پر مبنی طرزِ حکومت کا قیام نہ ہوتا تو وہاں کے مقامی باشندے اپنے ہم مذہب پیشواوٴں کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ کیوں دیتے ؟ اور ان کے ساتھ اس جذباتی محبت وعقیدت کا اظہار کیوں کرتے ؟