7 ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا، خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال کو حج بیت اللہ نہ ہو سکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا-
اناللہ واناالیہ راجعون یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا، اسی ابوطاہر قرمطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا- پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر کے ساتھ معاہدہ کر فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا- یہ واپسی 339ھ کو ہوئی، گویا کہ بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا، جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلہ میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجر أسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا- یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا جائے گا- اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار ہیں، خوبصورت غلاف سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں- محدث عبد اللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں!
ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا- اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا توسخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا- محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے- پھر اصل حجر اسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محد ث عبداللہ نے فرمایا :
” یہی ہمارا حجر اسود ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے-” اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں…؟
تو محد ث عبداللہ نے فرمایا :
یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا- ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے-
جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسےخانہ کعبہ پہنچایا، اس اونٹنی میں زبردست قوت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتی کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے-
(تاریخ مکہ للطبری)
بشکریہ : مولانا یاسر حبیب صاحب