نشہ اسلام میں حرام ہے یہ نشہ صرف ہیروئن ، منشیات، چرس یا شراب کا نہیں بلکہ ہر اس چیز کا جوانسان کوبے خود کردے . نشہ کرسی کا ہو ، طاقت کا ہو ، پیسے کا ہو ، حسن و خوبصورتی کا ہو ، بڑے خاندان کا ہو ، تعلیم کا ہو ، عقلمندہونے کا ہو ، کسی بڑے کاروبار کا ہو ، اگر انسان کو بے خود کرد ے اوراپنے آپ میں نہ رہے تو وہ بھی حرام ہے . اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں بلکہ اس کو چھوڑیں اپنے آپ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ آپ خود کس نشے کا شکار ہوں. یقینا اس دنیا میں ہر کوئی اپنے من پسند نشے کا شکار ہے کہیں کہیں یہ نشہ اس حد تک ہے کہ اس کا شکار صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور کسی کو نہیں دیکھتا . یہی میںہوں.اسے کسی بھی چیز کا نہیں چھوڑتی. جبکہ کہیں پر یہ نشہ ابھی اس حد تک نہیں پہنچا کہ ..میں ہوں.. کی صورتحال پیدا ہو لیکن پھر بھی بیشتر لوگ اسی راستے پر گامزن ہے اور اسی خول کو اپنے اوپر لپیٹ کر رکھ ہوا ہے اور اپنے من پسند خول سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں. اسے آپ سیف زون بھی کہہ سکتے ہیں.
بات سیف زون سے ہی شروع کرتے ہیں گذشتہ ماہ سے شروع ہونیوالے کرونا وائرس کے بڑھتے اثرات کے بعد حکومت نے شہریوں کو اپنے گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت کردی کہ یہ آپ لوگوں کا سیف زون ہے اور اس میں نکلنے کی صورت میں آپ پر کرونا کا حملہ ہوسکتا ہے . آغاز میں بیشتر لوگوں نے جن کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے تھا اسے غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے سیف زون تک اپنے آپ کو محدود کردیا. دیہاڑی دار مزدور بھی خوش ہوگئے کہ چلو دو تین دن گھر آرام سے گزار لیں گے اسی طرح سرکاری ملازمین جو ویسے بھی تنخواہ پر کم اور کمیشنوں پر زیادہ وقت گزارتے ہیں ابتداء میں خوش ہوگئے کہ چلو گھر پر بیٹھ کر تنخواہ لے لیں گے. لیکن لاک ڈائون کی بڑھتی ہوئی مدت نے جہاں سرکاری ملازمین کو پریشان کردیا کیونکہ صرف تنخواہوں پر گزارہ تو نہیں ہوتا کچھ نہ کچھ ملتے رہنا چاہیے کے مصداق ان کی اوپر کی آمدنی بھی بند ہوگئی ، اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر دیہاڑی دار مزدور ہوگئے جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے لئے کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں اور ان کا گزارہ ہوجاتا تھا. لیکن . لاک ڈائون نے انہیں بھوکا اور ساتھ میں ننگا بھی کردیا بہت سارے سفید پوش جن کی زندگی کی گاڑی کس نہ کسی طرح چل رہی تھی لاک ڈائون نے انہیں تباہ حال کردیا.
تباہ حال پاکستان کے حکمران جن کے ہیلی کاپٹروں پر فی کلومیٹر پچپن روپے خرچہ آتا ہے انہوں نے لوگوں کو ریلیف دینے میں اتنی چستی دکھائی کہ بارہ ہزار روپے جو اس حکومت سے پہلے ٹین پرسنٹ سوری ہنڈرڈ پرسنٹ کی حکومت نے شروع کیا تھا اور اس پر بے نظیر کا نام لکھ دیا حالانکہ یہ پیسہ عوام کا پیسہ تھا لیکن اپنی دکانداری بھی تو انہوں نے دکھانی تھی موجودہ حکومت نے احساس ذمہ داری کرتے ہوئے اس کا نام احساس رکھ دیا جو کہ احسن اقدام ہے لیکن انہیں غریبوں کا احساس اتنا ہوا کہ مہینے گزرنے کے بعد تین ہزار روپے پکڑا دئیے کہ آپ اس سے گزارہ کریں یعنی چار ماہ کی رقم بارہ ہزا ر روپے پکڑا دی کہ اس پر گزارہ کریں. شکر ہے کہ مختلف مذہبی تنظیمیں اور بعض شہری ذاتی حیثیت میں لوگوں سے فنڈ ز جمع کرکے لوگوں کی ضروریات کسی حد تک پوری کررہے ہیں ورنہ تو برا حال تھا .اور پھر جس طرح کے حالات بننے تھے کرونا سے کوئی مرے یا نہ مرے لیکن جب گھر میں بچے ، بوڑھے ماں باپ ، بہن بھائی گھر کے اکلوتے سہارے کے پیچھے ہوں اور راستے بھی بند ہوں تو ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ان لوگوں کو پھر گولیوں سے نہیں روکا جاسکتا اور لاکھوں کی فوج کروڑوں عوام کو کنٹرول نہیں کرسکتی.جب مرنا ہی ٹھہرا تو پھر کس کا ڈر اور کیسا ڈر..کیسی عزت اور کیسی بے عزتی…
عزت اور بے عزتی کا معیار جس معاشرے میں گاڑی، موٹر سائیکل ، بلند کوٹھی ، بڑے عہدے پر ہوں تو وہاں ہر کوئی ان چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے .یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عزت اورذلت دینے والا اللہ تعالی کی ذات ہے اسی طرح رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے ورنہ ہم انسان کو وہ لوگ ہیں جو دوسر ے لوگوں کو سانس لینے کا حق بھی نہ دیں.لاک ڈائون کے دوران سب سے زیادہ کام صحافیوں نے کیا ہے صرف کرونا پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے سب صحافی کرونا کرونا کرتے نظر آرہے ہیں میڈیکل ، ریسیکیو ، پولیس اور فوج کی ذمہ داریاں اپنی اپنی ہیں لیکن انہیں اس بات کی تنخواہیں ملتی ہیں بلکہ بعض کو بونس بھی مل گئے .اب کوئی یہ نہ کہیں کہ یہ لوگ خدمت کررہے ہیں ڈیوٹی اور خدمت میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ صحافی جن میں اکثریت مفت میں لگے ہوتے ہیں اور خدمت یہی لوگ کررہے ہیں ہر طرح کی صورتحال میں لوگوں کو معلومات فراہم کررہے ہیں ان کیلئے سیکورٹی ناکوں پرکوئی لائن نہیں نہ ہی نہیں نہ ہی ان کیلئے کسی نے گانا کمپوز کیا نہ ہی انہیں کسی نے سلام نہیں کیا.خیر یہ معمولی باتیں ان سے کچھ نہیں ہوتا لیکن ڈیوٹی کیلئے آنیوالے ان صحافیوں کیساتھ سیکورٹی ناکوں پر تعینات سیکورٹی اہلکارکس طرح تک رویہ رکھتے ہیں بتانے کے قابل ہی نہیں.حالانکہ ان کی گاڑیوں پر سٹکر لگے ہوتے ہیں وہ اپنے دفاتر کے کارڈ تک دکھا دیتے ہیں کہ ہم ڈیوٹی پر ہیں ..
دو دن قبل دفتر سے چھٹی ملنے کے بعد ساتھی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سوار تھا کہ سیکورٹی ناکے پر تعینات اہلکار نے روکا اور کہا کہ آپ دو موٹر سائیکل پر کیوں بیٹھے ہیں ہم نے جواب دیا کہ بھائی ہر ایک کے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ الگ الگ موٹر سائیکل خرید کرلیں اس پر سیکورٹی اہلکار نے منہ چڑھاتے ہوئے کہا کہ آج کل تو ریڑھی چلانے والے کے پاس موٹر سائیکل ہوتا ہے آپ کے پاس کیوں نہیں.جب کہہ دیا کہ بھائی ہم حرام خوری نہیں کرسکتے ورنہ موٹر سائیکل کیا گاڑی خرید لیتے تو پھر ان صاحب کو بھی غصہ آگیا اور کہاکہ چلو اترو. ایک بندہ.اور اگے چلے جائو. پھر ان صاحب کی وردی کا ڈر ، ساتھ میں لاپتہ ہونے او ردہشت گرد قرار دینے کے ڈر سے ہم بھی پیدل چل دئیے کہ چلو ایک تو سویلین ہو اوپر سے دوٹکے کے صحافی ہو .اس لئے پیدل ہی چلتے بنے یہ الگ بات کہ آگے جا کر پھر موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے.لیکن اس عمل نے ہمیں یہ سبق سکھا دیا کہ اس معاشرے میں پیدل چلنے والے اور دو ٹکے کے صحافیوں کی کوئی اوقات نہیں ، کوئی عزت نہیں کوئی بھی بیلٹ پہنے کوئی بھی صاحب. آپ کو کھڑے کھڑے آپ کی اوقات یا دلا دسکتا ہے..کہنے کو تو بہت کچھ ہے . لیکن آج کیلئے بس اتنا ہی…
Load/Hide Comments