لکھنا تو سچ ہی لکھنا .یہ وہ بیانیہ ہے جو بطور صحافی اپنے اساتذہ سے سنا ‘ فیلڈ میں سینئر صحافیوں سے سنا ‘ یونیورسٹی میں اساتذہ سے سننے کو ملا’ تربیتی سیشنز میں جغادری قسم کے صحافیوں کے منہ سے سننے کو ملا . لیکن کیا ہم سچ لکھ رہے ہیں بحیثیت صحافی یہ ایک سوال ہے جو ہر ایک صحافی کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے .کچھ دانشور قسم کے صحافی دعوی تو بہت کرتے ہیں کہ ہم سچ لکھتے ہیں لیکن ان کا سچ بھی آدھا ہوتا ہے اور آدھا سچ انہوں نے چھپایا ہوتا ہے کیونکہ یا توان کا مفاد ادھے سچ سے وابستہ ہوتا ہے یا پھر دوسرے فریق کا .. کچھ بڑے سطح کے ..دا..نش .. ورر قسم کے صحافی سچ کے سوال پر کہتے ہیں کہ ہم معاشرے میں اتنا سچ بولیں گے اور لکھیں گے جتنا اس معاشرے میں برداشت کرنے کی صلاحیت ہے بقول ان کے مطابق ان کا سچ خطرناک ہوتا ہے اس لئے اتنا سچ بھی نہیں بولنا چاہئیے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو. لیکن ..
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے . اگر معاشرے میں سچ سے بگاڑ پیدا ہوتا تو پھرہمیں بطور مسلمان او ر بطور امتی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سچ بولنے کی احکامات نہ ملتے..
دوسری طرف ہم نے اتنا جھوٹ اس معاشرے میں بول دیا ہے کہ اب ہمیں اس جھوٹ میں رہنے کی عادت سی ہوگئی ہیں ہم لوگ خواہ و ہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں خواہ وہ عام لوگ ہو’ صحافی ہو ‘ ڈاکٹر ہو ‘ وکیل ہو’ جج ہو’ تاجر ہو ‘ سیاستدان ہو یا فوجی . اس معاشرے میں جھوٹ کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ہم اپنے مقصد کیلئے جھوٹ کے علاوہ اور کچھ سننا نہیں چاہتے اور اگر کوئی سچ بولنے کی غلطی کرتا ہے تو پھر ااس کا وہ حال کیا جاتا ہے او اسے مری ہوئی نانی ایسے طریقے سے یاد دلائی جاتی ہے کہ سچ بولنے والااپنے سچ پر شرمندہ ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے لگتا ہے… لیکن اس کے باوجود…
پورا سچ لکھنے کا آغاز میں آج سے ہی کرر ہا ہو اںاور یہ سچ اپنے ہی شعبے سے ہیں کیونکہ جھوٹ بولنے کی اور ہمت بھی نہیں اور اس جھوٹ کا حساب بھی دینا ہوگا جو اس رب کو جو بھولنے والا نہیں . نہ کسی کے اچھے عمل کو اور نہ کسی کے برے عمل کو . سورة مریم کا کی آیت .. و ما کان ربک نسیا.. اور تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں.
کیا یہ پورا سچ نہیں کہ صحافت کے شعبے میں آنیوالے بیشتر ایسے لوگ ہیں جو زندگی کے مختف شعبوں سے دھتکارے ہوئے ہیں یعنی انہیں کوئی روزگار نہیں ملا انہوں نے شعبہ صحافت کو چن لیا اور اس میں قسمت آزمائی کی ‘ یہ بات میں پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں .کچھ لوگ بڑے لوگوں سے تعلقات بنانے کے خواہش میں اس شعبے میں آئے ہیں کچھ لوگ اپنے بلیک منی کو چھپانے ‘ بلیک میلنگ کرنے اور کچھ لوگ اس میں رقم بنانے کیلئے آئے ہیں. اور کچھ لوگ اپنے اپنے کاروباری دھندوں کو بچانے کیلئے آئے ہوئے ہیں. بہت کم لوگ ہیں جو اس شعبے میں اپنی چوائس سے آئے ہیں…
یہ وہ پورا سچ ہے جس کے بار ے میں بات کرتے ہوئے اور لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کپکپاتا ہے کیونکہ بہت بڑے بڑے نام اس شعبے میں ہیںتاہم اگر ان میں سچ بولنے اور سچ سہنے کی ہمت ہو تو صرف اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں اور صرف اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جان کر دل میں سوال کریں کہ وہ لوگ اس شعبے میں کیوں آئے ہیں .اور یہ سوال مجھ سمیت سب کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے .
مجھے آج اس بارے میں لکھتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میں ذاتی طور پر بڑانالائق قسم کا شخص ہوں ‘ تھرڈ ڈویژنر ‘ عام سا لڑکا جس پر اللہ مہربان ہوا اورایک ساتھی دوست جس کا بھائی آج بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہے اس کی وساطت سے اس شعبے میں بطورکمپیوٹر آپریٹر آنے کا موقع ملا اور پھر ‘ گرافک ڈیزائنر ‘ انچارج کمپیوٹرسیکشن ‘ ٹرانسلیٹر سے ہوتا ہوا جنرل رپورٹر’ سٹی رپورٹر ‘ شوبز رپورٹر ‘ سٹی رپورٹر ‘ سب ایڈیٹر’ ایڈیشن انچارج اور بلدیاتی رپورٹر سے ہوتے ہوئے کورٹس رپورٹرتک آنے کا سلسلہ جاری رہا.اللہ کی مہربانی جاری رہی اور وہ تھرڈ ڈویژنر لڑکا جسے آج کے موجودہ حالات میں کبھی کبھی کرائے کیلئے پیسے نہیں ہوتے اس شعبے کی وساطت سے بہت سارے ممالک کودیکھنے کا موقع ملا’ تربیتی سیشنز کئے ایسی جگہیں پاکستان میں دیکھیں جنہیں دیکھنے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالی کی مہربانی تھی ‘ ہے اور انشاء اللہ رہے گی. اس میں اس تھرڈ ڈویژنر کا کوئی کمال نہیں.
میں کیا ہوں اور کیا سے کیا بن گیا’ یہ وہ سوال ہے جو آج شعبہ صحافت سے وابستہ ہر شخص کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے اس شعبے میں آنے سے قبل اس کی اوقات کیا تھی اور اب کیا ہے ایمانداری سے اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے آج بڑے بنگلوں اور بڑی گاڑیوںمیںپھرنے والے صحافی ابتداء میں کیا تھے.یہ ذہن میں لانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب ہماری محنت کا کمال ہے محنت زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے والے افراد ہی کرتے ہیں لیکن یہ سوال کرنے کی ہے کہ کہ ہم میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں میں وہ قلم تھمادی ہے جس پر اس نے قرآن میں قسم کھائی . کیا ہم بحیثیت صحافی اس قلم کی حرمت کا احساس کررہے ہیں کیا جس مقصد کیلئے ہمیں قلم دیا گیا ہے وہ ڈیوٹی ہم پوری کر رہے ہیں یا نہیں .
میرا مقصد کسی کی تذلیل نہیں نہ ہی کسی کو طنز کا موقع دینا ہے لیکن اگر انسان کے جسم میں پھوڑا ہو تو پہلے تو اسے چھپاتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے وہ نقصان دہ ہونے لگتا ہے جسم کیلئے اور پھر کسی دوسرے ڈاکٹر کو اس کا علاج کرنا پڑتا ہے.ابھی ہمارے جسم کا پھوڑا اتنا بڑا نہیں کہ کوئی اور علاج کرے یا پھر ایسی صورتحال نہیں کہ لوگ ہم سے دور رہیں اور دور کرنے لگے یا ہمیں بٹھانے نہ دیں کہ پھوڑے کی بدبو سے انہیں نقصان نہ ہو.اس لئے اس پھوڑے کا علاج کرنے کی ضرورت ہے کیا ہم بحیثیت صحافی اپنی ڈیوٹی پوری کررہے ہیں یا پھر اس قلم سے ناڑے کو شلوار میں ڈالنے کا کام کررہے ہیں …
دوسری قسط انشاء اللہ بہت جلد…
Load/Hide Comments