عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے زوال کی داستان لکھتے لکھتے کرونا وائرس کی عفریت اچانک نمودار ھو گئی جس نے ہر چیز کی طرح اس کہانی کا بھی راستہ روک لیا مگر اب مزید ایسی سنسنی خیز اور ھوشرباء باتیں منظر عام پر ائی ھیں جنہیں سن کر ایک مرتبہ پھر تحریروں کا دخ کرونا وائیرس سے ولی خان یونیورسٹی کی طرف موڑنا پڑ گیا
سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خورشید خان کے بارے اج یہ اھم انکشاف ھوا کہ وہ سال میں چار مرتبہ برطانیہ اہنے گھر بچوں کے پاس جاتا تھا جہاں وہ ہر ٹرپ میں ہندرہ سے بیس دن قیام کرتا تھا مگر یہ بات اج کھلی کہ موصوف اپنے گھر جانے کا کہنے کی بجائے یہ جواز ظاہر کرتے کہ وہ برطانیہ میں ولی خان یونیورسٹی کے ان طلباء اور اساتذہ کو معائینہ کرنے جا رہے ھیں جو وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہے ھیں ، چنانچہ اس طرح انکا اپنے گھر جانا اور بچوں سے ملنا سرکاری خرچے پر ھوجاتا،
یونیورسٹی کے بااعتماد زرائع کا کہنا ھے کہ موصوف اہنے بچوں کے پاس قیام کے دوران 400 پاونڈ یومیہ کے حساب سے ڈیلی الاونس لیتے تھے جوکہ پاکستانی کرنسی میں اجکل کے حساب سے کم و بیش 80 ھزار روپے (یومیہ) بنتے ھیں جو کہ پندرہ سے بیس دنوں کے لیئے پندرہ لاکھ روپے سے زاھد وصول کرتا تھا اسی طرح طیاروں میں نہ صرف بزنس کلاس کے مہنگے ترین ٹکٹ کے اخراجات بھی یونیورسٹی کے فنڈ سے ادا ھوتے تھے بلکہ وہ برطانیہ سے فرانس، جرمنی اور بعض دیگر ممالک کے دورے بھی کرتا تھا جس کے لیئے یونئیورسٹی کے لیئے بزنس کرنے یا بزنس لانے کا بہانہ بناتا مگر ادارے کے ریکارڈ میں ایسا کوئی ثبوت نہی ملتا جو ثابت کرتا ھو کہ موصوف اپنے تمام عرصے کے دوران کوئی بزنس لانے میں کامیاب ھوئے یا کسی بین الااقوامی یونیورسٹی کے ساتھ کوئی ایم او یو کرسکے ، اسکے برعکس پاکستان میں اپنی ملازمت کے دوران وہ یونیورسٹی کے اندر رہائش رکھنے کی بجائے اسلام اباد میں ادارے کے گیسٹ ھاوس پر قابض رہے جو دس سے بارہ کمروں پر مشتمل ھے اور ادارے کو اس گیسٹ ھاوس سے ماھانہ چھ سے سات لاکھ روپے ریونیو ملتا تھا مگر یہ ریونیو بھی بند ھو کر رھ گیا، موصوف یہاں وائس چانسلر کم اور وی ائی پی مہمان کے حثیت سے زیادہ رہے یونیورسٹی کا انتظام و انصرام اپنے چہیتے جونیئر لوگوں کے حوالے کر رکھا تھا جو پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلوں پر مبنی ڈرافٹ بنا کر ان سے دستخط لیتے تھے اس طرح گریڈ 20 اور 21 کی کلیدی اور اھم انتظامی اسامیوں پر تعینات تجربہ کار اور سینئر افسروں کو ھٹا کر گریڈ 17 سے 19 تک کے غیر متعلقہ اھلکاروں کو تعینات کردیا گیا اور سینئر تجربہ کار لوگوں کو ان لونڈوں کے ماتحت کر دیا گیا، اسی طرح برطانیہ میں بچوں کے ساتھ ملاقات اور وقت گزارنے کی ڈرامہ بازی (جسکا تفصیلی زکر اوپر کے سطور میں کیا جا چکا ھے) سال میں چار مرتبہ کی دہرائی جاتی ،
جسکے اخراجات کا مجموئی حجم کم و بیش ایک کروڑ روپے بنتا تھا اور یہ سلسلہ اس حد تک جاری رہا کہ مستعفی ھونے سے دو دن پہلے بھی وہ لندن کی یاترا کرکے ایا تھا اور اپنے قیام کے اخری دو دنوں میں اپنے منظور نظر چالیس کے قریب چہیتوں کو ایک ایک ماہ کی اضافی تنخواہ بھی گفٹ کر کے اپنی سخاوت اور دریا دلی کی ایک اور تاریخ رقم کی یوں یونیورسٹی کے خزانے کو مزید ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ چونا لگا دیا، “مال مفت دل بے رحم” کے مصداق موصوف نےیونیورسٹی کے خزانے کو اس طرح بےدردی سے لوٹا کہ اب ادارے کے پاس ملازمین کو تنخواھیں بھی ادا کرنے کے لیئے پیسے نہی رہے ،یونیورسٹی کی انتظامیہ ملازمین کی تنخواہوں پر کٹ لگانے پر مجبور ھوگئی اور گریڈ کیارہ سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں سے 25 فیصد جبکہ گریڈ سترہ اوراس سے اوپر کے ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہوں سے 50 فیصد کٹوتی شروع کردی ،
دوسری ستم ظریفی یہ ھوئی کہ یونیورسٹی کے35 کروڑ روپے کسی بنک کو زیادہ شرح سود کے چکر میں ایسے پیچیدہ شرائط پر دیئے گیئے ھیں کہ مذکورہ بنک اب فوری طور پر یہ پیسے واپس کرنے کے لیئے تیار نہی ھے یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ھے کہ سرکاری رقوم کو کسی بھی بنک میں منافع حاصل کرنے کے لیئے استعمال نہی کیا جاسکتا نہ ہی سرکاری فنڈ کے اکاونٹ کا ٹائٹل اپنے نام سے کیا جاسکتا ھے
عمران خان نے اپنے بعض چہیتے ایم این ایز کی سفارش پر جب خورشید خان کی بطور وائس چانسلر تقرری کی اور انکے پیشرو ڈاکثر احسان پر کرپشن کے مقدمات بنے اسوقت رینکنگ میں ولی خان یونیورسٹی پاکستان کی جامعات میں بارہویں نمبر پر تھی اور جب خورشید خان اپنی قابلیت کے جوھر دکھا کر واپس لندن بھاگے تو اس وقت رینکنگ میں یہ عظیم ادارہ 56 ویں نمبر پر ا چکا تھا ممکن ھے کہ کچھ لوگ اسے ادارے کی ترقی سے تعبیر کریں مگر حقیقت یہ ھے کہ رینکنگ میں یہ گراوٹ خورشید خان اور اسے لانے والوں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہی، یونیورسٹی کے زوال میں اھم کلیدی اسامیوں پر تعینات سینئر اور تجربہ کار ٹیم کو ھٹا کر کھڈے لائن لگانا بھی ایک اھم فیکٹر ھے جہاں ان اسامیوں پر جونیئر اور غیر متعلقہ چہیتوں کو لاکر بٹھا دیا گیا جنکا کام صرف “یس سر” کہنا تھا یہ لوگ ابھی بھی انہی اسامیوں پر تعینات ھیں جنہیں فوری طور پر اپنی اصل پوزیشنوں پر بھیجنے کی اشد ضرورت ھے،
عام انتخابات کے دوران میں عمران خان کا سپورٹر رہا ھوں اور اسی وجہ سے میں نے اج تک عمران خان پر کوئی بھی تنقیدی عبارت تحریر کرنے کی کوشش نہی کی مگر اج ولی خان یونیورسٹی کی یہ ابتر اور سنگین صورتحال دیکھ کر میں اسکا زمہہ دار صرف اور صرف عمران خان ہی کو قرار دونگا جنہوں نے اپنی دوستی اور لندن میں بار بار کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش میں ایک ایسی یونورسٹی کو گھٹنوں کے بل بٹھا دیا جس نے پروفیسر ڈاکٹر احسان کے سنہرے دور میں ترقی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کرتے ھوئے عالمی جامعات میں اپنا مقام حاصل کر لیا تھا ھم عمران خان پر اج کسی صورت تنقید نہ کرتے اگر وہ کرپشن، سفارش اور اقرباء پروری کے خلاف 126 دن کا میوزیکل ڈرامہ کرکے عوام کو بیوقوف نہ بناتے ، عمران خان اج بھی ماضی کی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کو کرپٹ کہتے نہی تھکتے مگر ھم دعوی کے ساتھ یہ بات کرتے ھیں کہ ماضی کی کرپٹ حکومتیں اج کی ایماندار حکومت سے بدرجہ ہاہ بہتر تھیں ،اب یہ سوال بھی اھمیت کا حامل ھے کہ موجودہ حکومت نے کیا کسی بھی تحقیقاتی ادارے کو اس قابل چھوڑا ھے کہ وہ ان سنگین بے قائدگیوں کی اعلی سطحی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کر کے ادارے کی تباہی و بربادی کے زمہ داروں کا تعین کرے اور ان کو قرار واقعی سزا دلوا کر لوٹا گیا قومی خزانہ واپس لاسکیں جیسا کہ عمران خان اب بھی اٹھتے بیٹھتے یہی دعوئے کر رہے ھیں.، (جاری)
Load/Hide Comments