سانحہ اے پی ایس ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا، آٹھ برس بیت گئے مگر اس سانحہ کا زخم آج بھی تازہ ہیں۔
16 دسمبر 2014 کے تلخ ترین دن 6 بےرحم دہشتگرد آرمی پبلک اسکول پشاور میں عقبی دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے، دہشتگردوں نے اسکول کے آڈیٹوریم ہال میں جاری فرسٹ ایڈ ورکشاپ میں شامل بچوں اور بچیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی
درندہ صفت حملہ آور بارود اور خودکش جیکٹ میں سے لیس تھے جنہوں نے بچوں اور اساتذہ سمیت کئی لوگوں پر
گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے کی بچے شہید اور زخمی ہوگئے
انہوں نے بچوں اور اساتذہ سمیت 149 افراد کو شہید کیا پوری قوم آج بھی یہ غم بھلا نہ سکی اور آج بھی پاکستانی قوم دہشت گردوں کو شکست دینے کیلئے پرعزم ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: افغان ملٹری فورسز کی جانب سے دوبارہ پاکستانی علاقوں پر فائرنگ
16 دسمبر 2014 کو ہر آنکھ اشک بار تھی ملک سوگ میں ڈوب چکا تھا اور ہر طرف قیامت کا سما تھا۔
وہ والدین انہوں جنہوں نے اپنے بچوں کی مستقبل کو حسین بنانے کے لیے انہیں آرمی پبلک اسکول میں داخل کروایا تھا وہ اپنے بچوں کو ان کی مستقبل کے خواب کے ساتھ دفنا تے رہے اس دن ہر آنکھ اشک بار تھی اور سب ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے کہ آخر ان بچوں کا کیا قصور تھا ان کو کس جرم کی سزا مل گئی تھی۔
جن دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر حملہ کیا تھا ان دہشت گردوں کو افواج پاکستان نط اسی وقت آپریشن کے دوران جہنم واصل کر دیا تھا جب کے بعد میں سہولت کار بھی پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے تھے۔
لیکن 16 دسمبر کا ہولناک دن ملک کی تاریخ کا بیانک خواب بن کر رہ گیا۔